Bangla panu stories,Bangla chotey,bengali panu,banglachoti, bangla choti,bangla chotui are available here

Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Tuesday, June 2, 2020

میرا


میرا نام رضیہ ہے میری عمر 22 ہے  میں پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتی ہوں مجھے قدرت نے حسن کی دولت سے خوب مالا مال کیا تھا میرا جسم دودھ مکھن کھا کر خوب پھل پھول گیا تھا۔میں گاؤں کی مٹیا ر  تھی ۔مجھ سے بڑی دو بہنیں ہیں میں نے میٹرک تک تعلیم گاؤں کے اسکول سے حاصل کی تھی





پر  گاؤں میں اسکول نا ہونے کی وجہ سے میں تعلیم جاری نا رکھ سکی۔میرا والد ایک غریب کسان تھا اسکی زیادہ تر زمین بینک کے پاس گروی پڑی تھی جو اس نے میری بڑی بہن کی شادی کے وقت گروی رکھی تھی پر شادی سال بھی نا چل پائی اور میری بہن طلاق لے کر گھر بیٹھ گئی۔
ایک دن میں اپنی سہیلی کے گھر سے واپس آئی تو گھر کے باہر گاڑیا ں کھڑی تھیں گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے ۔میں نے دیکھا تو میرے پنڈ کا چودھری اندربیٹھا  ہواتھا ساتھ کچھ مہما ن اور بھی تھے،
چودھری :ویکھ امام دینا انج دا رشتہ فیر نہی اونا تیری دھی راج کرے گی راج   (دیکھو امام دین اس طرح کا رشتہ پھر نہیں آئے گا تیری بیٹی راج کرے گی راج)
میرا والد:چودھری صاب لوگ کی کین گے وڈیا ں دی جگہ دے چھوٹی دا ویا ہ کر دیتا وا (چودھری صاحب لوگ کیا کہیں گے بڑی بیٹیوں کی جگہ چھوٹی کی شادی کردی ہے)
چودھری:توں فکر نا کر تیری دونوں بیٹیاں دی شادی دا سارا خرچہ میں کراں گا تو ں ہاں کر دے ۔تیری زمین وی میں چھڑوا دیواں گا تیری دھی دے ناں 20 کلے زمین ناں کرا دے گا میرا ویر۔(تم فکر نا کرو تمہا ری دونوں بیٹیوں کی شادی کا خرچہ بھی میں کروں گا تم ہاں کر دو تمہا ری زمین بھی میں چھڑوا دوں گا اور تمہا ری بیٹی کے نام  میرا بھائی 20  کلے زمین بھی  کروا دے گا۔

میرے باپ نے سر جھکا دیا ۔مجھے امی نے چائے لے جانے کو کہا میں نے ٹرے پکڑ کر اندر داخل ہوئی تو سامنے ایک 60 سال کا کلف لگے کپڑوں میں ملبوس آدمی بیٹھا تھا جو شکل سے ہی کسی پنڈکا چودھری لگتا تھا۔ اس کے ساتھ دو آدمی اور تھے جو اس کے بیٹے تھے۔ان کے ساتھ ہمارے پنڈ کا چودھری عنایت  بھی بیٹھا تھا۔
میں نے ان کو سلا م کیا اور کمرے سے نکل آئی ان کے جانے کے بعد ابو نے مجھے بلایا اور بیٹھنے کو کہا میں بیٹھ گئی۔
ابو:ویکھ دھی رانی میں مجبور آں تیرا ویا ہ میں تیرے تو پُچھے بغیر رکھ دیتا واں ۔میرے حالا ت تیرے سامنے وا۔ (دیکھو بیٹی میں مجبور ہوں میں نے تیری شادی تجھ سے پوچھے بغیر رکھ دی ہے میرے حالات تیرے سامنے ہیں۔
میں دل میں حیرا ن تھی کہ میری شادی تو اچھی جگہ ہو رہی ہے اور وہ جہیز بھی نہیں مانگ رہے الٹا شادی کا سارا خرچہ بھی اٹھا رہے ہیں اور میری دوسری بہنوں کی شادی  بھی وہ لو گ کروایں گے ۔ابو کی زمین جو بینک کے پا  س گروی ہے اس کو بھی واپس لے کر دیں گے۔پھر بھی ابو اتنا پریشان کیوں ہیں۔
میں:ابو مینوں کوئی اعتراض نہیں وا۔(ابو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔)




ابو:دھی رانی تینوں کیویں دسان چودھری دے نال جیہڑا بندا آیا سی نا او چودھری دا دور دا رشتہ دار وا اس نے اپنے چھوٹے بیٹے واسطے تیرا ہتھ منگیا وا۔(بیٹی میں ےم کو کیسے بتاؤں چودھری عنایت کے ساتھ جو دوسرا بندا آیا تھا وہ چودھری کا دور کا رشتے دار ہے اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کے لیئے تمہا را ہاتھ مانگا ہے)
میں:فیر (پھر)
ابو:اودا چھوٹا منڈا سائیں وا(اسکا چھوٹا بیٹا پاگل ہے)
مجھ پر جیسے بجلی ٹوٹ پڑی میں نے ابو سے کہا:ابو مرے نال انج دا ظلم نا کرو(ابو میرے ساتھ ا طرح کا ظلم نا کریں)
ابو نے اپنے صافے کو میرے پاؤں پر رکھ دیا اور روتے ہوئے کہا: پت میری عزت رکھ لا۔
میں نے مجبور  ہو کر ہا ں کر دی۔کچھ دنوں کے بعد میری شادی کا دن آ گیا اور میں شادی کر کے اپنے گاؤں سے دور دوسرے پنڈ میں آ گئی۔
میری سسرال کی حویلی بہت بڑی تھی۔میں دلہن بنی اپنی سیج پر بیٹھی تھی ۔حویلی کی عو رتوں نے نے رسموں سے فارغ ہو کر مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔د  ل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔کچھ دیر کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی چلتا ہوا میرے بیڈ کے پاس آکر بیٹھ گیا
اس نے میرا ڈوپٹا کھینچا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک معصوم سا  18 سال کا لڑکا مجھے گھو ر رہا تھا۔میں سمجھ گئی وہ میرا شوہر ہے۔اس نے مجھ سے کہا: توں میری وہٹی ہے ناں( تم میری بیوی ہو نا)
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا
اس نے کہا: توں گونگی واں(تم گونگی ہو )
میں ہنس دی : نہیں میں گونگی نہیں ہیگی( میں گونگی نہیں ہوں)
اس نے کہا: توں میرے نال لُڈو کھیلیں گی۔
اس نے ساتھ والی ٹیبل سے لڈو نکالی اور میرے سامنے رکھ دی۔وہ واقعی زہنی طور پر بچہ تھا۔آج ہماری سہا گ رات تھی جس پر شادی شدہ جوڑے کچھ اور کھیلتے ہیں اور وہ بجائے میرے حسن سے کھیلنے کے لُڈو کھیلنے کو کہہ رہا تھا۔ 
(جاری ہے)

No comments:

Post Top Ad

Pages