Bangla panu stories,Bangla chotey,bengali panu,banglachoti, bangla choti,bangla chotui are available here

Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Thursday, February 11, 2010

پردیس


پاکستانی سیکس اسٹوری
ایک نئی کہانی کے ساتھ سب دوستوں سہیلیوں کی خدمت میں حاضر ہوں اور امید کرتی ہوں اس بار بھی کہانی آپ کے زوق پہ پورا اترے گی۔ سب پڑھنے والوں سے یہ گزارش ہے کہ کبھی زندگی کی الجھنوں میں لکھنے میں دیر سویر ہو جاتی ہے تو تب حوصلہ کیا کریں لکھنے والی یا لکھنے والا آپ کے پڑھنے کے لیے لکھتا ہے یا لکھتی ہے اور تو  کوئی مقصد پیش نظر نہیں ہوتا ۔ ممکن ہے میں روز اپ ڈیٹ نا دے سکوں لیکن کہانی ضرور مکمل کرنے کی کوشش کروں گی یہ آپ لوگوں سے وعدہ ہے۔ تو کہانی کی طرف چلتے ہیں یہ کہانی ایک ایسے انسان کی جو وقت اور حالات کے 
پاکستانی سیکس اسٹوری
دھارے پہ بہتا چلا گیا اور ایسی ہزاروں کہانیاں ہمارے ارد گرد ہیں ۔ تو کہانی اسی کی زبانی سنتے ہیں ۔ میرا نام نبیل ہے جب ہوش سنبھالا تھوڑا بڑا ہوا تو وقت کیساتھ ساتھ مجھے علم ہوا کہ گھر میں میں ہی پہلی اولاد ہوں ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں سبھی مجھ سے چھوٹے ہیں مجھ سے چھوٹی مریم پھر نمرہ اور بھائی وقار ہے ۔ ابو کا بہت اچھا کاروبار تھا اور وہ شہر کے اچھے کاروباری افراد میں شامل تھے اور امی ایک مکمل گھریلو خاتون۔ زندگی میں سب کچھ تھا گھر پیسہ گاڑی جیسا کہ ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے یہ سب سہولیات میسر تھیں لیکن امی کی اچھی تربیت کی بدولت ہم بہن بھائی سب اچھی طرح پڑھتے گئے اور ان کی سختی اور محبت نے ہمیں بہکنے بھٹکنے سے باز رکھا اور زندگی بڑے ہی مزے کے ساتھ گزرتی چلی گئی۔ ابو سے ہماری ملاقات صبح ناشتے کی میز پہ اور پھر رات کے کھانے پہ ہوتی تھی دن بھر وہ اپنے کاروبار میں مصروف رہتے تھے ۔ ہمارا تعلق کے پی کے کے ایک نواحی علاقے سے ہے اور ہماری زمین جائیداد بھی اچھی تھی ۔ پڑھتے پڑھتے وقت کا اندازہ ہی نا ہوا بچپن سے ہم سب نوجوانی کی طرف سفر شروع کر چکے تھے اور کرتے کرتے بیس سال کی عمر میں میں نے گریجویشن کر لی ۔ میری اس کامیابی پہ مجھے بہت مبارکباد ملی کیونکہ ہماری طرف پڑھائی کا اتنا رحجان نہیں تھا ۔ جس دن میرا رزلٹ آیا تو گھر میں سبھی بہت خوش تھے ابو نے ڈھیر ساری مٹھائی لا کر محلے میں اور عزیز رشتہ داروں میں تقسیم کی اور اس دن وہ پہلی بار عصر کے قریب گھر آ گئے تھے۔ رات کھانے کی میز پہ ( ہم کھانا چٹائی پہ یا صحن میں لکڑی کے تخت پوش پہ بیٹھ کر کھاتے تھے) زیب داستان کے لیے اس کو کھانے کی میز ہی لکھا جائے گا۔ ہم سب بیٹھے تھے اور سب کے چہرے پہ خوشی تھی تو تب ابو نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا ہاں بھائی اب یہ بتاو کہ مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟؟ میں نے ابو کی طرف دیکھا اور اس سے پہلے کوئی جواب دیتا تو امی نے کہا۔ اب اسے اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کریں اتنا پڑھنا بہت ہوتا ہے ویسے بھی اور پڑھنے کے لیے اسے اب یونیورسٹی جانا ہو گا جو کہ دوسرے شہر میں ہے۔ میں نے امی کی طرف دیکھا اور پھر ابو کی طرف دیکھا اور چپ ہو گیا کیونکہ ہمیں یہ بتایا اور سکھایا گیا تھا کہ جب گھر میں بڑے بات کریں تو چھوٹوں کو درمیان میں نہیں بولنا چاہیے ۔[/font]
 
پاکستانی سیکس اسٹوری

میں خاموشی سے کھانا کھانے لگ گیا لیکن ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھا کہ ابو نے پھر کہا اور اس بار وہ امی سے مخاطب ہوئے۔ بیگم میں کچھ اور سوچ رہا ہوں اتنا کہہ کر وہ رکے اور پھر ایک گئری سانس لیکر بولے، ہم سب بہن بھائی اور امی بھی ان کی طرف متوجہ تھے۔ میرے ابو کی عمر تب کوئی پینتالیس سال کے لگ بھگ تھی اور امی کی عمر اڑتیس سال تھی میرے ابو ایک وجہیہ پٹھان تھے اور امی بھی بہت خوبصورت تھیں دولت کی فروانی اور آسائشوں نے ان کی عمر کو ایک جگہ جیسے روک رکھا تھا۔ ابو نے ایک گہری سانس لی اور امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میرا دل کرتا ہے میں نبیل کو انگلینڈ بھیج دوں اور یہ وہاں جا کر پڑھے اور ادھر ہی کوئی کاروبار کرے کیونکہ یہاں آنے والا وقت بہت مشکل ہو گا۔ ابو کی یہ بات سن کر ہم سب حیران اور پریشان ہو گئے امی کے ہاتھ سے بلکہ نوالہ تک گر گیا میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور وہ روہانسی آواز میں بولیں کیا آپ جانتے نہیں کہ بھائی لندن ہیں اور جب امی فوت ہوئیں تو وہ ان کے جنازے پہ بھی نہیں آ سکے کیا آپ یہ چاہتے کہ اب یہ بھی ہم ماں باپ کے جنازے تک نا دیکھ سکے۔ میرے ایک ماموں جو ہمارے ماموں خالہ لوگوں میں سب سے بڑے تھے وہ بچپن سے ہی گھر سے بھاگ کر لندن چلے گئے تھے اور بعد میں انہوں نے علاقے سے ہی شادی کی تھی اور پھر مامی کو بھی ساتھ لے گئے تھے ان کے سب بچے ادھر تھے اور کہانی میں آگے ان سب کا زکر آئے گا۔ امی کو اس تجربے کے پیش نظر میرا باہر جانا پسند نہیں تھا تبھی پہلے ری ایکشن میں وہ اس طرح رونے لگ گئی تھیں اور سچی بات کہ مجھے بھی بہت حیرت ہوئی تھی اس سے پہلے میں نے بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ ابو نے امی کی طرف دیکھا اور کہا بیگم زندگی موت سب خدا کے اختیار میں ہے لیکن ہم اپنے جنازے دیکھنے کی خواہش میں بچوں کو قید نہیں کر سکتے اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو ان کی زندگی جینے اور گزارنے کا طریقہ آنا چاہیے ہے تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ ان کو آزاد چھوڑا جائے تا کہ یہ اپنا اچھا اور برا فیصلہ خود لے سکیں اور ہم ہر قدم پہ ان کی رہنمائی کے لیے ساتھ ہوں گے۔ ابو نے بات جاری رکھی اور کہا بیگم ٹھنڈے دل سے سوچو صابر امی کے چھوٹے بھائی ، اس کو تمہاری امی نے باہر نہیں جانے دیا آج اس کی زندگی کیا ہے؟؟ صابر ماموں محنت مزدوری کرتے تھے اور چھوٹی موٹی ٹھیکداری کرتے تھے ۔[/font]
پاکستانی سیکس اسٹوری

Post Top Ad

Pages